Urdu Novel Aatisham Complete PDF Download By S Merwa Mirza Novels
"بابا!مجھے پتا اے میری شسٹر گول گپے جیسی ہو گی ناں؟"
اورحان جو بار بار وارڈ کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا،بیٹے کی بات پر ہنس دیا۔
"بلکل مصطفی،گول گپے جیسی،پیاری سی۔۔۔"
سب ہی ہنسے تھے۔
"اور وہ میلی ہو گی۔۔۔بس میلی۔۔۔نہ کسی کی، نہ میکس کی۔۔۔بس میری۔۔۔میں اسکے بال میں کنگھی کروں گا۔۔۔میں اسکو چیچو کی کہانی سناؤں گا۔۔۔میں اسکو اپنی چھوٹے والے جوس والے سٹراؤ سے پانی پلاؤں گا۔۔۔"
مصطفی کی چہکاروں پر سب بے ساختہ ہنسنے لگے۔
اسی لمحے اندر سے ایک نرس نکلی،چہرے پر دھیمی مگر گہری مسکراہٹ۔
"مبارک ہو!بیٹی ہوئی ہے۔۔۔ماں اور بچی دونوں بالکل ٹھیک ہیں۔"
پورا ویٹنگ ایریا جیسے پل بھر کو خاموش ہوا،اور پھر قہقہے۔ اور تالیاں گونج گئیں۔
اورحان کا چہرہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوا،پھر اس نے چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپایا،جیسے ایک بوجھ اتر گیا ہو۔شکر کا،محبت کا، مکمل ہونے کا۔
باسل نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا،عمار نے اس کی پشت تھپتھپائی،حاشر بھی بھینچ گیا۔
"مبارک ہو بابا جانی۔۔۔پوری فیملی کی جان آگئی اب۔"
میرال کی امی اور حرا بھی آگے بڑھیں،اور سب نرس سے ضد کرنے لگے کہ ایک بار چہرہ دکھا دیں۔
نرس نے نرمی سے چھوٹی سی گلابی چادر میں لپٹی،بند مٹھیوں والی،گلابی رخساروں والی،نازک سی شہزادی سب کے سامنے لا کر رکھ دی۔
مصطفی تو جیسے بھول ہی گیا کہ میکس بھی اسکی کوئی ذمہ داری ہے۔
"ممی یہ میلی ہے ناں؟ میری میلی شسٹر!"
مصطفی نے جھک کر بچی کے ماتھے کو چوما،اور فوراً اعلان کیا۔
"اب سے میکس چھوٹا ہو گیا،میں بڑا بھائی ہو گیا۔"
سبکا ہنسی سے برا حال تھا۔
میرال کمزور سی حالت میں بیڈ پر لیٹی،اورحان نے ہاتھ تھام رکھا تھا،اسکا اس سکھ دینے پر ماتھا چوما،اس کی آنکھوں میں وہی نرمی،وہی محبت تھی جو ایک شوہر کی آنکھوں سے برس سکتی ہے جب وہ ماں بننے والی اپنی محبوبہ کو دیکھتا ہے۔
"آپ نے مجھے سب کچھ دے دیا میرال۔۔۔اب میں اور کچھ نہیں مانگتا۔"
میرال نے دھیرے سے سرور بھرے انداز میں آنکھیں بند کیں۔
اجر، ایمل اور رملا تینوں مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔
"لگتا ہے اب ہماری باری بھی قریب آ رہی ہے،" ایمل نے سرگوشیانہ اعلان کیا۔
"بس یہ دو مہینے اور نکلیں تو پھر ان شاءاللہ دو اور چھوٹے چھوٹے وجود پوری سیال حویلی اور ماہیل پیلس کو الٹ پلٹ کر دیں گے،اور پھر تیسرا بھی آجائے گا"
رملا بھی ہنسی۔
"پہلے مصطفی کو ہی بہن سے سنبھالنا پڑے گا۔"
اجر نے شوخی سے کہا،مصطفی نے سنا تو اپنی کمر سیدھی کی۔
"میں سب سنبھال لوں گا۔ سب۔ بہن، ممی، بابا، جوس، ٹافی۔۔۔بس... مجھے چاکلیٹ دینی ہوگی روز۔"
پھر وہ نیچے دوڑ گیا،بچی کے پاس، اور اپنی چھوٹی سی ہتھیلی اسکے ہاتھ کے پاس رکھ دی۔
"میں بڑا بھائی ہوں۔۔۔مجھے تنگ مت کرنا اوکے؟"
ننھی بچی نے جیسے آہستہ سے اپنی مٹھی کھولی، اور سب نے جیسے اس منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کر لیا،جبکہ سب ہیرو اپنی اپنی بھرے اور پیارے وجود والی حسینہ کو پیار سے دیکھتے اور حسین لگے کہ منظر زہے نصیب کہہ اٹھے۔